اس خاکہ کے مقاصد
1. ہر فرد جماعت دلائل کی روشنی میں یہ محسوس کرے کہ اس کی شخصیت کے ارتقا کا عمل ابھی نا تمام ہے۔ نیز ہر فرد کو معلوم ہو کہ اس کے اندر اپنے آپ کو بہتر بنانے کے امکانات کی وسیع دنیا موجود ہے۔
2. ہر فرد جماعت کے اندر یہ شعور بھی تازہ ہو کہ اپنی تربیت کا اصل محرک یہ ہے کہ وہ اللہ سے قریب تر ہو جائے ، اس کے اعمال میں میں خلوص اور للٰہیت پیدا ہو ، خدا اور اس کے رسول سے محبت کا جذبہ فروزاں ہو، اسے یہ فکر دامن گیر ہو کہ اس کا ہر عمل رسول اللہ کی سنت کے مطابق ہو یہاں تک کہ آخرت میں رب اس سے راضی ہوجائے اور جنت کی نعمتوں سے وہ سرشار ہو جائے۔
3. ہر فرد اپنی قوتوں اور کمزوریوں کو پہچانے ، قوتوں میں اضافہ اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے وہ کوشاں ہو جائے۔
4. ہر فرد کو یہ ادراک ہو جائے کہ زندگی کی مختلف جہات ہیں اور کامیاب زندگی کے لیے ہر پہلو سے سے زندگی کو متوازن اوروحسین بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
5. تحریک سے وابستہ ہر فرد کو یہ معلوم ہو جائے کہ اپنی تربیت کی ضرورت نہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لئے ہے بلکہ امت کے تزکیہ کی ذمہ داری بھی اس پر آتی ہے۔
6. امت وسط کے فرد کی حیثیت سے متوسلین جماعت پر یہ بات عیاں ہو جانی چاہیے کہ وہ انسانیت کے لئے ایک مربی، دا عی اور رہنما ہیں۔
تزکیہ کیا ہے ؟
تزکیہ ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کے معنے پاک و صاف کرنے اور نشونما دینے کے ہیں۔ انسان کی فطرت ہی اللہ تعالی نے کچھ یوں بنائی ہے کہ اس کے اندر خیر اور شر کے داعیے رکھ دیے گئے ہیں ۔
Surat No 91 : Ayat No 8
فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾
پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی5 ،
تزکیہ کا عمل یہی ہے کہ فرد خیر کی تمام جہات میں اپنی استعداد کی آخری حد کو پہنچنے کی سعی کرے ،اپنی صلاحیتوں کو نشونما دے ، اپنے لئے ، سماج اور انسانیت کے لئے مفید بنے یہاں تک کہ اس کی زندگی حسین بن جائے۔ اس شخصیت سازی کے عمل کے دوران اپنی زندگی کو تمام منفی پہلوؤں، جذبوں اور عادتوں سے پاک کرتے رہنا ہوگا۔ یہ عمل زندگی کی آخری سانس تک جاری رہے گا۔ کوئی فرد خواہ کتنے ہی بڑے عہدے اور منصب پر فائز ہو اس دینی اور روحانی عمل سے کبھی فارغ نہیں ہو سکتا۔ تزکیہ خیر کی طرف بڑھنے کے لئے ایک جہد مسلسل کا نام ہے جس سے شخصیت کی کایا پلٹ ہوتی ہے۔
انسان کے قیمتی لمحات میں سے چند لمحات وہ بھی ہیں جب آدمی اپنے اندرون خانہ کی گہرائیوں میں اترتا ہے اور اپنی شخصیت کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے ؟ جہاں کھڑا ہے کیا وہ اپنے اس مقام سے خوش ہے یا ترقی کی کچھ اور منزلیں ابھی باقی ہیں ؟ کیا وہ اپنی ایمانی ،روحانی اور دینی صورتحال سے مطمئن ہے ؟ کیا اس نے اپنی صلاحیتیں کو بروئے کار لائی ہیں ؟ وہ کونسی نیء صلاحیتیں ہیں جنہیں دعوت ،خدمت اور تحریک کے لیے اسے اپنےاندر پیدا کرنی ہیں ؟
تزکیہ میں قابل توجہ دو اہم پہلو
یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ انسانوں اور جانوروں میں امتیاز کرنے والی شیء عقل ہے۔ یہ خدا کی عظیم ترین نعمت ھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں کمپیوٹر کی مجموعی کارکردگی سے کہیں زیادہ بہتر ہمارے دماغ کے ایک سیکنڈ کی کارکردگی ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ ہم اپنی ذہنی استعداد سے بہت ہی نیچے کی سطح پر زندگی گزارتے ہیں۔ تزکیہ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم اپنی ذہنی صلاحیت کو بڑھائیں جسکے پراسس میں غوروفکر کرنا ،بحث ومباحثہ کرنا ، قرآن میں تدبر کرنا، حالات کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھنا شامل ہیں ۔ قرآن اپنے پڑھنے والوں کو بار بار غور وفکر پر ابھارتا ہے اور یہ وظیفہ عقل کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں۔ ناقص تصور دین جو سماج میں مروج ہے اس میں عقل کو بے دخل کردیا گیا ہے۔ جبکہ کہ اسلام کی تعلیمات سراسر عقل اور بصیرت پر مبنی ہیں۔ انبیاء نے بھی اس کا دعویٰ کیا ہے۔
Surat No 12 : Ayat No 108
قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾
تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا رستہ تو یہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ۔
دعوتی پہلو سے بھی یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدعو سے کہا جائے کہ یہ ہیں وہ تعلیمات جو عقل کی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں ۔
ہر فرد اس کی کوشش کرے کہ وہ غور و فکر کا عادی بنے ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے لئے غور و فکر کرنے کا اصل وسیلہ قرآن مجید ہے ۔ جو راست قرآن مجید میں تفکروتدبر کر سکتے ہیں ان کے لیے منزلیں اور آگے ہیں۔ اور جن احباب کو یہ شرف حاصل نہ ہو وہ ضرور کسی ایک تفسیر کا مکمل مطالعہ کریں۔ تفسیر کا مطالعہ در اصل قرآن کے ساتھ ایک سفر ہے جس میں میں پڑھنے والا مفسر کی آرا کے قدم بقدم عقل کو شامل رکھے تو قرآن حالات زمانہ اور خود ذاتی زندگی کے کوائف کے اعتبار سے نئے گوشے کھولتا چلا جاتا ہے اور زندگی کی راہ روشن ہوجاتی ہے۔ قرآن پچھلے زمانے کی سرگزشتوں کو سناتے ہوے اچھے اور برے انسانی نمونے سامنے لاتا ہے۔ یعنی ایک آئینہ ہے جو ہمارے سامنے نے رکھ دیتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کی نوک پلک درست کر سکیں، کردار کے قبیح پہلوؤں کو صاف کر سکیں اور اپنے اعمال اور روئیوں میں حسن پیدا کرسکیں۔
تزکیہ نفس کا دوسرا پہلو قلب کی صفائی ہے ۔ عبادتوں میں کوتاہی کرنے ،ذاتی زندگی میں گناہ کرنے اور سماجی زندگی میں درشت معاملہ کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے یہاں تک کہ پتھر یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ دل کی سختی یا نرمی کا اظہار زبان سے سے ہو جاتا ہے۔ نرم دل آدمی خدا اور بندے سے قریب ہوتا ہے اور اس کے برعکس کس سخت دل آدمی خدا اور بندوں سے دور ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ قلب کی صفائی پر بار بار توجہ دی جائے۔ اس کے لئے بھی قرآن کی تلاوت کارگر نسخہ ہے۔
Surat No 57 : Ayat No 16
اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾
کیا ایمان لانے والوں کے لیئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے پگلیں اور اس کے نازل کر دہ حق کے آگے جھکیں ۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ایک لمبی مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ۔
اصلاح قلب کے نسخوں میں سے ایک نسخہ یہ ہے کہ ہر فرداپنے آس پاس میں دینی ایمانی اور روحانی طور پر اپنے سے بہتر افراد کی صحبت اختیار کرے۔ اس لئے کہ اچھی صحبت کا خوشگوار اثر ہمارے ذہن و فکر اور مزاج پر پڑتا ہے جس سے ہماری زندگی کے تزکیہ کے عمل میں مدد ملتی ہے۔
تزکیہ اور ذاتی ارتقا کا ہمہ جہتی تصور
-1 روحانی نشوو نما
ویسے تو اسلام ایک وحدت ہے مگر قرب فہم کے لئے اس کو اجزاء میں تقسیم کرکے کے سمجھا جاتا ہے ، جیسے کہ اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا معاشی نظام ، اسلام کا خاندانی نظام ۔ اسی طرح سے اسلام کا ایک روحانی نظام بھی ہے۔ اس نظام کے تحت بیشتر وہ اجزاء آتے ہیں جنہیں کتب احادیث اور فقہ کی کتابوں میں عبادات کے عناوین کے تحت بیان کیے گئے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ وہ اکثر ظاہری ترکیب و ترتیب بیان کرتے ہیں ۔ ان تعبدی امور کی اصل روح یہ ہے کہ انسان کواپنے آپ پر کنٹرول ہو، اپنے باطن کو پاک صاف اور منور کرے، برضا و رغبت خدا کا پرستار بنے، خدا سے لو لگائے ،اسی کی طرف متوجہ رہے، اسی سے راز و نیاز کرے ، اسی سے دعائیں مانگے اور اسی کی طرف رجوع کرنے میں سکون محسوس کرے۔ انسان سے گناہ کا صدور ہو جانا ایک فطری بات ہے مگر اسے فورا یاد آجائے کہ اس نے خدا کی بارگاہ میں توہین کی ہے ،اپنی غلطی تسلیم کرے اور اس کی طرف متوجہ ہوجاے۔
انسان کے روحانی ارتقاء کے لئے قرآن سے وابستگی بہت ضروری ہے کیونکہ وہ آسمانی غذا ہے۔ قرآن سے وابستہ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جماعت روزانہ اس سے یوں تعلق وابستہ کرے کہ سماعت ، تلاوت، مطالعہ اور غوروفکر کا شرف ملتا رہے۔
روحانی ارتقاء کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر فرد جماعت عام حالات میں بھی خدا سے ویسے ہی دعا کرتا رہے جیسے کہ اضطراری کیفیت میں اسے پکارتا ہے ۔ خدا سے مسلسل وابستہ رہنا نا بڑی خوش قسمتی کی بات ہے اور اس کی روحانیت کی تابندہ علامت ہے ۔ گناہ کے بار بار کرنے اور توبہ سے غفلت برتنے کے نتیجے میں دل ویران ہوجاتا ہے ،جس کے نتیجے میں خدا سے دوری اور عبادتوں سے وحشت پیدا ہوجاتی ہے ، تب انسان کا سفر اسفل السافلين کی طرف ہونے لگتا ہے۔
-2 علمی فکری و نظریاتی نشونما
تحریک اسلامی کے کارکنان کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ علمی اور فکری لحاظ سے اپنے ماحول میں ممتاز ہوا کرتے تھے۔ آج بھی جن پیچیدہ حالات سے ہم گزر رہے ہیں اور آئے دن ملک و ملت کے سا منے جو نت نئے چیلنجز کھڑے ہو رہے ہیں ہیں ان میں رہنمائی کرنے کے لیۓ علمی و فکری بلندی درکار ہے۔
قرآن وسنت کا وسیع اور گہرا مطالعہ کرنا، قرآن و سنت پر مبنی وسیع اور متنوع لٹریچر کا مطالعہ کرنا، اسلامی تعلیمات کا فلسفیانہ پہلو سے واقفیت پیدا کرنا اور اور اسلام کے اہم ترین پہلوؤں پر پر علماء کے مختلف آراء کی جانکاری رکھنا نا علمی پختگی اور بلندی کی علامتیں ہیں۔ اسی طرح وقت کے چیلنجز کا ادراک کرنا ، مختلف باطل نظام ہائے حیات کی کمزوریوں پر گہری نگاہ رکھنا، حالات اور زمانے کے چیلنجز کو سمجھنا ، اسلامی بنیادوں پر اس کا تجزیہ کرنا ، قرآن و سیرت کی روشنی میں حل تجویز کرنے کی صلاحیت نرکھنا فکری پختگی کی علامتیں ہیں۔
وابستگان تحریک کو چاہیے کہ وہ اپنے علمی اور نظریاتی سطح بڑھائیں اور اعلی علمی سطح کے لوگوں سے گفتگو اور مباحثے کے قابل ہوں تاکہ دور حاضر کے نظاموں کی ناکامی واضح کر سکیں اور اسلام کی علمی برتری کا لوہا منوا سکیں۔
3- جسمانی صحت و صلاحیتوں کا ارتقاء
( الف) جسمانی صحت
ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسمانی طور پر تن و مند رہے تاکہ وہ استخلاف فی الارض کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھاسکے۔ بیمار اور لاغر آدمی نہ اپنا بھلا کر پاتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے لئے وہ ویسے دوڑ دھوپ کرسکتا ہے جیسے ایک صحت مند آدمی کر پاتا ہے۔ بیماری زندگی پر ایک بوجھ ہے جسے جلد از جلد اتارنا چا ہیے تاکہ زندگی کے لمحات کارآمد ہو سکیں۔ جبکہ تندرستی ہزار نعمت ہے مگر اس نعمت کی قدر آدمی اس وقت پہچانتا ہے جب وہ بیمار ہوجاتا ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے بیمار پر لازم ہے کہ وہ اپنا علاج کرے۔
بہت سی بیماریوں کا سبب خود انسان ہے۔ اب تحقیقات بتا رہی ہیں بہت سے امراض انسان کی اپنی سوچ سے پیدا ہوتی ہیں جب وہ منفی جذبات کا شکار ہوتا ہے ۔ ذہنی تناؤ غصہ ،تفکرات ، ضد اور ہٹ دھرمی انسانی جسم میں ضرر رساں کیمیائی بہاؤ کا سبب بنتے ہیں جس سےجسم کے اندرون میں ایک قسم کا زہر پھیلتا ہے جو انسان کی قوت مدافعت کو مسلسل حملہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ قوت مدافعت اپنا گھٹنہ ٹیک دیتی ہے ۔نتیجۃً انسان کا جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ بیماریوں کی ایک وجہ خوراک میں بے احتیاطی بھی ہے۔ لذت کام و دہن اور چٹخاروں کا رسیا انسان خود اپنی صحت کا نقصان کرتا ہے جب وہ غیرمتوازن خوراک کو اپنا معمول بنا لیتا ہے۔ ہے۔بیماریوں کی ایک وجہ وہ لائف سٹائل بھی ہے جو آج کی ٹیکنالوجی اورسہولیات کی مرہون منت ہیں۔ کسی زمانے میں وہ بیماریاں نہیں پائی جاتی تھیں جو آج عام و خاص کو لگی ہوئی ہیں۔
کسی زمانے میں معمول تھاکہ گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جاتا تو پرہیز کے ذریعے علاج ہوجایا کرتا تھا یا پھر قدرتی چیزوں کے استعمال سے بیماریوں پر قابو پا لیا جاتا تھا۔ مثلاً شہد، ہلدی ، تل ، زیرہ ،کالی مرچ، پھل، ڈرائی فروٹس، جنتر اور جڑی بوٹی وغیرہ۔ مگر آج دواؤں کا استعمال ایک عام سی بات ہوگئی ہے ۔اس میں علاج کے ساتھ ساتھ اس کا سائیڈ افیکٹ ہھی ہوتا ہے ۔ یہ کبھی نیند کی مقدار کو بڑھا دیتی ہیں تو کبھی یہ جسم کی توانائی کو کھینچ لیتی ہیں ہیں۔ اس لیے صحت کو بیماری سے قبل غنیمت جاننا چاہیے۔
(ب ) صلاحیتوں کا ارتقاء
جسمانی صحت کے کے علاوہ بہت سی صلاحیتوں کو بھی پیدا کرنا ہے۔
دنیا میں انسان کا مقام و مرتبہ صلاحتیوں سے طےء ہوتا ہے۔ بے صلاحیت افراد نہ دنیا کی اور نہ ہی دینی رہنماءی و قیادت کر سکتے ہیں۔ امریکہ آج مادی دنیا کی قیادت کر رہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نے دنیا کی بہترین صلاحیتوں کو اپنے پاس جمع کر رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٢٣ سالہ مختصر مدت میں جو حیرت انگیز انقلاب برپا کیا تھا اس میں بھی خدائی نصرت کے بعد انسانی صلاحیتوں کا بہترین سرمایہ لگا۔ حضرت بلال نے رسول اللہ کی نگرانی میں اپنی صلاحیتوں کو ایسے پروان چڑھایا کہ وہ ایک معمولی غلام سے ترقی کرکے اسلامی ریاست کے شعبیہ مالیات کے نگران کار، رسول اللہ کے پرسنل اسسٹنٹ، اور اسلام کے پہلے موءذن کے مقام بلند پر فائز ہوئے۔ حضرت عمر فاروق، ایک جلالی طبیعت کے حامل فرد کی سطح سے اٹھ کر دنیا کی تاریخ کے بہترین حاکم بنے اور دنیا کو حکمرانی کا بہترین ماڈل چھوڑ گئے۔
4- جذباتی نشونما
جذبات وہ ذہنی کیفیت کا نام ہے جو خیالات، محسوسات اور روییوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بار بار ان میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ ذہنی مسرت اور ذہنی تناؤ نتیجہ ہیں اندرون میں نمودار ہونے والے جذبات کا۔ جذبات پر قابو پانے سے شخصیت میں گہرائی، اور ٹہراوء پیدا ہوتے ہیں اور زندگی پرسکون ہوجاتی ہے۔ منفی جذبات پر قابو پانے سے زندگی پر بہار اور شخصیت پر کشش ہو جاتی ہے۔
جذبات کا تعلق خیالات سے ہوتا ہے۔ مثبت سوچ مثبت جذبات پیدا کرتےہیں جبکہ منفی سوچ اور خیالات منفی جذبات پیدا کرتےہیں۔ اور یہ عمل ہماری واقفیت کے بغیر ہوتے ہیں۔ منفی جذبات میں مبتلا رہنے ہی کا نام جذباتیت ہے اور اس کا حامل شخص اجتماعی زندگی میں اپنا وزن اور وقار کھو دیتاہے۔ ڈر، خوف، مایوسی، احساس جرم، چڑچڑاپن، خود ملامتی، قنوتیت، لاخیراپن، شک، وہم،اپنوں سے نفرت وغیرہ منفی جذبات کی کچھ مثالیں ہیں۔
ان سے نجات پانے کا پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ پر نگاہ رکھیں اور برابر متوجہ رہیں ۔ اس کو mindfulness کہتے۔ منفی جذبات نہ صرف یہ کہ ہماری ترقی کے دشمن نمبر ایک ہیں بلکہ ہمیں نفسیاتی پیچیدگیوں اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے زندگی کی کوالٹی میں زبردست کمی واقع ہو جاتی ہے اور زندگی کا بھرپور لطف اٹھانے سے ہم قاصر رہ جاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثبت شخصیت کے حامل تھے۔ منفی جذبات سے آپ کی زندگی پاک تھی اور منفی سوچ اور جذبات سے اپنی زندگی کو کیسے پاک رکھا جائے اس پر آپ نے امت کو تعلیم بھی دی۔
اس میقات میں تبدیلی اور ارتقاء کے حوالے سے کارکنان کومنفی جذبات اور منفی رویوں سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔
5- تعلقات گہرے اور خوشگوار ہوں
انسان ایک سماجی وجود رکھتا ہے ۔ وہ چاہے نہ چاہے بہت سے رشتوں اور تعلقات کے بندھن میں بندھا ہوا ہوتا ہے۔انسان کی شخصیت سازی میں یہ تعلقات بہت گہرا اثر چھوڑتے ہیں ۔ مثلا ماں ، باپ ، بھائی ، بہن رشتہ دار ، دوست احباب ، اساتذہ ، قائد و مرشد وغیرہ ۔ ایک عمر ہوتی ہے کہ ان تعلقات سے انسان بہت کچھ لیتا اور سیکھتا ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے اس کو واپس لوٹانا ہوتا ہے ۔ بوقت ادائیگی کبھی تعلقات میں تلخیاں آجاتی ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ اس وقت انسان اپنا ماضی بھول جاتا ہے ۔ حال کے جھگڑوں اور جھمیلوں میں یوں الجھتا ہے کہ وہ محبتوں، نازبرداریوں اور احسانات کو بھلا کر تلخیوں کو سخت دانتوں سے پکڑ لیتا ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ بسا اوقات اپنی بیوی اور بچوں سے بھی تعلقات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ انسان دنیا سے جاتے ہوئے نالاں ، روٹھا ہوا ، پز مردہ ، دہائی دیتے ہوئے اکیلا دنیا سے روانہ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ رحمی رشتوں کا پاس و لحاظ کیا جائے، والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے ، بیوی سے حسن معاشرت کی جائے ، بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی جائے ، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے ، اور عام انسانوں کے ساتھ خوشگوار اور حسین تعلقات قائم رکھے جائیں۔ ان سب امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ آپ اپنی بیویوں کی خواہشات کا خیال رکھتے تھے اور دلداری فرماتے تھے، جس کی اللہ تعالی نے تحسین فرمائی۔ مگر چونکہ آپ آخری رسول تھے ، کسی چیز کو اپنے اوپرپابندی عائد کر لینے سے اس بات کا خدشہ تھا کہ امت میں اسے حرام تصور کر لیا جائے گا اس لئے اللہ تعالی نے بس اس پہلو کی اصلاح فرمائی۔
Surat No 66 : Ayat No 1
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱﴾
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے1؟ ﴿کیا اس لیے کہ ﴾ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو2؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے3
ایک طرف یہ ایک دینی فریضہ ہے تو دوسری طرف انسان ان تعلقات کو خوشگوار بنا کر کسی کے اوپر احسان نہیں کرتا بلکہ اپنی ذات کا بھلا کرتا ہے اور اپنی نفسیاتی صحت کو بہتر بنانے کا سامان کرتا ہے ۔ جن کے ساتھ تلخیاں یا جھگڑے اور دشمنیاں ہوتی ہیں ان کی زندگیوں میں غیظ و غضب اور غصہ بھر جاتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ڈیپریشن اور مایوسی ان کی زندگیوں کے ساتھ چمٹ جاتی ہے ۔ اس کے برعکس جو خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوں اور تعلقات کو بہتر بنائے رکھتے ہو ں وہ نفسیاتی طور پر صحت مند ہوتے ہیں جس کا عکس ان کی زندگی کی خوشگواریوں میں نظر آنے لگتا ہے۔ ان کا ذہن مثبت میدانوں میں سوچتا اور ان کے قوی' عملی میدانوں کو فتح کرنے کی طرف لگ جاتے ہیں۔
اس میقات میں ہمارا ہر کارکن اپنا یہ جائزہ لے کہ اس کے تعلقات دوسروں کے ساتھ کیسے ہیں ؟ اکثر و بیشتر آدمی یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ حق بجانب ہے اور دوسروں نے اس کے ساتھ ناانصافی کی ہے ۔ ذرا غور سے دیکھیں تو یہ دنیا ایسی ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے ۔ یہ دنیا ایک ایسی وادی ہے کہ خود ہمارا رویہ صدائے بازگشت بن کر ہماری طرف لوٹ آتا ہے۔ لہذا عقلمندی یہ ہے کہ دوسروں سے شکایت کرنے کے بجائے آپ اپنی زندگی کو بہتر بنانا شروع کردیں۔ آپ کو محبت چاہیے تو پہلے محبت دینا سیکھیں۔ آپ کو عزت چاہیے تو پہلے عزت دینا سیکھیں۔ آپ کو انصاف چاہئے تو پہلے آپ انصاف کرنا سیکھیں۔ آپ کو تعلقات میں خوشگوار چاہیے تو دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں ۔
6- رزق حلال اور معاشی استحکام
اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس دنیا میں ایک اچھی زندگی جینے کیلئے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسان کی سعادت مندی ہے کہ کم ازکم اس کی ضروریات کی تکمیل کی حد تک اس کی معیشت مضبوط ہو۔ دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنا باعث ننگ ہے اور قرض کی حیثیت ایک بوجھ کی ہے۔ معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ آمدنی کو بڑھایا جائے،سوال کرنے سے بچا جائے اور قرض سے کوسوں دور رہا جائے۔
Surat No 4 : Ayat No 5
وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۵﴾
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے قیامِ زندگی کا ذریعہ بنایا ہے ، نادان لوگوں کے حوالہ نہ کرو ، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو ۔
مال نہ صرف اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے ضروری ہے بلکہ کہ دنیا کو نوازنے اور دوسروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی مال ایک اہم ذریعہ ہے جس سے تعاون کر کے معاشرے کی صورتحال کو بدلا جا سکتا ہے۔ اسلام نے بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا ۔ بلکہ تنگدستی سے پناہ مانگنے کی دعا سکھائی مزیدبرآں غنی بننے کی بھی دعا سکھائی ۔
اللهم اني اعوذ بك من الفقر واعوذ بك من القله والذله واعوذ بك ان اظلم أو اظلم.
اللهم اكفني بحلالك عن حرامك واغنني بفضلك عمن سواك
اللهم اني اسالك علما نافعا ورزقا واسعا وشفاء من كل داء
ربي اغفر لي ذنبي ووسع لي في داري وبارك لي في رزقي
ربي اني لما انزلت الي من خير فقير
اللهم اني ضعيف فقوني اللهم اني ذليل فاعزني اللهم اني فقير فاغنني
قرض انسان کے ذہن پر ایک بوجھ ہے اور اس سے عزت نفس میں کمی واقع ہو جاتی ہے،۔ قرضدار سامنے والے سے دب جاتا ہے اور اس کی بے باکی اور جرات میں کمی آجاتی ہے.
جب ضروریات زندگی کی تکمیل نہ ہو تو انسان پریشان رہتا ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہحلال روزی خوب کماےء۔اور اس بات کا جائزہ لیتے رہے کہ کہیں لاشعوری میں اس کے مال میں حرام کی آمیزش تو نہیں ہوگی ؟ اس کی کئی شکلیں ہیں مثلا، ہر سال حساب لگا کر زکوۃ کا نہ نکالنا، رشوت، جھوٹ، دھوکہ دھڑی، قیمتوں میں گرانی پیدا کرنے کے لیے احتکار یعنی زخیرہ اندوزی کرنا، چوری کرنا یا چوری کے مال کی تجارت کرنا، ممنوع چیزوں کی تجارت کرنا جیسے شراب لااٹری وغیرہ اسلام میں حرام ہیں۔ بعض ایسی چیزیں بھی حرام ہیں جن کا سماجی روایات پر چل کر یا غفلت نتیجے میں ارتکاب کر لیا جاتا ہے ، جیسے سے میراث تقسیم نہ کرنا، اس میں ڈنڈی مارنا، ترک کی تقسیم میں حقدار کی حق تلفی کرنا، سیونگ بینک کے کھاتے میں اضطراری طور پر سود کا جمع ہونا اور اسے نکال نہ دینا، لائف انشورنس کرانا، وغیرہ۔ حلال کمائی میں حرام کی آمیزش سے دولت حرام ہوجاتی ہے اور حرام کھانے سےدعا قبول نہیں ہوتی اور یہ بھی یاد رہے کہ حرام سے پلنے والی اولاد بے سود اور سوہان روح ہوتی ہے۔
تجارت کی بعض پرانی شکل ہیں اور دور جدید میں بعض نیء شکلیں بھی پیدا ہوگئی ہیں۔ ہمارے تاجروں کے لئے ضروری ہے کہ بیئع و شراء سے متعلق فقہ کی بنیادیں علوم کا مطالعہ کر لیں۔
یہاں یہ بات نوٹ کرلیں کہ معاش کے لئے دوڑ دھوپ کرنا جہاد کے برابر ہے۔ اسلام اپنی آمدنی پر قناعت کرنا نہیں سکھاتا بلکہ خرچ میں بخل اور اسراف کے بین رویہ اختیار کرنا سکھاتا ہے اور معمولی آمدنی ہو تو اس کے مطابق قناعت کے ساتھ خرچ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ معاشی پلاننگ سیکھی جائے اس طرح کہ آمدنیوں میں اضافہ ہو، خرچ کو متوازن رکھا جائے ، بچت کی عادت پیدا ہو اور اس بچت شدہ مال کو اس طرح لگایا جائے کہ وہ نشونما پائے۔ یہی مال ذاتی ضروریات کی تکمیل کا سامان کرے گا اور انفاق فی سبیل اللہ کے بھی کام آئے گا۔ پلاننگ سے انسان یہ بھی سیکھے کہ آج کی کیا ضروریات ہیں اور آگے مستقبل میں کیا ضرور یات درپیش ہو سکتی ہیں ، تاکہ کل کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔
معاشی نشونما اور ترقی کے لئے لئے تقدیر کا اپنا رول ہے مگر اسلام تدبیر ر اختیار کرنے سے منع نہیں کرتا بلکہ اس کی تعلیم دیتا ہے۔ تدبیر غوروفکر سے بھی ہو سکتا ہے مگر کسی ماہر سے استفادہ کرکے نئی راہیں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔
آگاہ رہیں کہ معاشی کوششوں میں انسان اپنے آپ کو اتنا نہ کھپا دے کہ اپنے مقصد حیات کو وہ ثانوی درجہ دینے لگے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ضروریات زندگی کی تکمیل نہ ہو تو ذہنی یکسوئی کے بغیر تحریکی سرگرمیوں میں دلجمعی کے ساتھ حصہ لینا دشوار ہو جاتا ہے۔
7- تہذیب نفس
قرآن نے انسانی نفوس کے متفرق نمونے پیش کیے ہیں ہیں۔ کسی کا نفس بہت پھولا ہوا ہوتا ہے تو وہ صدا لگاتا ہے، "انا ربكم الاعلى". کسی پر جب شہوۃ کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے نفس کی ڈھٹائی ہوتی ہے "وغلقت الابواب وقالت هيت لك". جب مال کا خناس کسی کے سر پر سوار ہوتا ہے تو وہ اتراتے ہوئے پھنکارتا ہے "انما اوتيته على علم عندي" کبھی اپنے کو ہدایت یافتہ سمجھ کر دوسروں کو گمراہ قرار دیتا ہے تو وہ کہتا ہے "واذا راوهم قالوا انها هؤلاء ى لضالون." کبھی انسان دنیا پرست ہوکر شھوت کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے تو قرآن اس کی تصویر کھینچتا ہے "فممثله كمثل الكلب ان تحمل عليه يلهث او تتركه يلهث." جب انسانی نفس صرف زبان کے چٹخارے کے پیچھے لگ جائے اور صرف خورد و نوش مقصد زندگی ٹھہر جائے تو اس کی تصویر قرآن ان الفاظ میں کھینچتا ہے "يتمتعون وياكلون كما تاكل الانعام". یہ سب بنیادی طور پر نفس امارہ کے شاخسانے ہیں۔ نفس امارہ انسان کو پیٹ، شرمگاہ اور نفس کا بندہ بنا دیتا ہے۔ ہر فرد بہتر جانتا ہے کہ اس کی کمزوری کہاں ہے۔ شرمساری کی بات ہے کہ نفس کے ہاتھوں انسان کب تک مجبور بے بس ہوتا رہے گا ۔ آخرت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ نفس کی تہذیب اس طرح سے کریں کہ دنیا سے جاتے ہوےء "يا ايتها النفس المطمئنه "کے لقب سے پکارےجائیں۔
ہمارے سماج میں بھی نفس کے مختلف نمونے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ کوئی اپنے کو بڑی چیز سمجھنا ہےdeception of granduer۔ کوئی اپنے کو ایڈ یا ، فلسفہ کا امام سمجھتا ہے، تو کوئی سمجھتا ہے کہ علم و ہنرمندی کی انتہا اس پر ختم ہوگئی۔ کوئی زبان دانی میں اپنے آپ کو حرف آخر باور کراتا ہے۔ تو دوسری انتہا یہ ہے کہ بعض اپنے کو حقیر فقیر ناقص وگنہگار تصور کرتے ہیں۔ کوئی خود ملامتی کا شکار ہوتا ہے۔ ( Self -flagellation ) یہ سارے رویہ انسانی نفس کے اندر کی خوبیوں کو دبا دیتے ہیں ۔
9- انسانیت دین اور تحریک کے لیے مفید تر بنیے
موجودہ دور میں عام طور پر بیشتر انسانوں کے دو عظیم مسائل ہیں۔ ایک انسان خود اپنے ہاتھوں مجبور ہے۔اس کی زندگی اس کے لیے ایک بوجھ ہے۔غربت افلاس ناخواندگی بیماریوں نے اسے جکڑ رکھا ہے۔ دوسرا، وہ دوسروں کے ظلم اور چیرا دستی کا شکار ہے۔ آئے دن نظام وقت ظلم کی نئی نئی راہیں تلاش کرتا ہے اور ایک عام انسان ان اس کے سامنے مجبور محض ہے۔ دونوں صورتیں متقاضی ہیں کہ ان کی مدد کی جائے۔
ان دونوں مسائل کے علاوہ اور اس سے زیادہ ایک اور سنگین مسئلے کا بھی عام انسان شکار ہے، مگر احساس سے وہ بیگانہ ہے۔اپنی حیثیت خود اس پر آشکارہ نہیں۔مسائل حیات میں وہ یوں گھرا ہوا ہے کہ اسے اپنے بارے میں بندہ ہونے کا احساس بھی ختم ہو رہا ہے۔ یا پھر وہ خدا کا باغی ہے یا سینکڑوں خدا کے سامنے ڈنڈوت بجالارہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ المیہ ہے کہ انہیں ایمان کی دولت ملنے کے باوجود وہ خیر امت ہونے کے احساس سے عاری ہیں، اور اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ انہیں نبوی کام کی طرف رہنمائی کرنا ہے تاکہ وہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ کر سکیں ،لاچاروں کی مدد کر سکیں، اور خدا سے غافل بندوں کو خدا کا پرستار بناسکیں ۔وہ خود عدل و قسط کے قیام کے لئے اٹھ کھڑے ہوں،اور دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ اور ان پر یہ واضح ہوجائے کہ دعوت، اصلاح امت، خدمت خلق اور قیامِ عدل و قسط کا کام بہت ہی عظیم کام ہے جس سے دنیا میں ان کی سرخروئی اور آخرت میں کامیابی منحصر ہے۔
خاکہ
عقل و قلب
عقل و قلب کے تزکیے کے حوالے سے کل چار باتیں سامنے آئیں ہیں۔
Ø قرآن کی تفسیر کا مطالعہ کرنا
Ø غور فکر کی عادت پیدا کرنا
Ø دل کو صاف کرنا اور صاف رکھنا
Ø اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا
تجویز برائے مطالعہ وہ استفادہ
● تفہیم القرآن - مولانا سید ابوالاعلی مودودی
● تدبر قرآن - مولانا امین احسن اصلاحی
● بیان القرآن - ڈاکٹر اسرار احمد
● تفسیر عثمانی - علامہ شبیراحمدعثمانی
● بس یہی دل - ابویحییٰ منشورات
● روح کے نغمے- سید قطب شہید
● عقل کی تربیت۔ قرآن مجید کے سائے میں - محی الدین غازی- ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی
● Google play store میں جاکر usman parvez ٹائپ کریں اور کلک کریں، تقریبا 50 تفاسیر ، مجموعہ احادیث اور سیرت کی سافٹ کاپیوں کی فہرست سامنے آجائے گی۔ اپنے ذوق اور ضرورت کے لحاظ سے تفسیر ، مجموعہ احادیث یا سیرت کی کتابیں ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں ۔
● The study Quran by Seyyed Hossein Nasr
● Tafseer by Abdullah Yusuf Ali
● https://play.google.com/store/apps/dev?id=5436702375879733393
● QuranHive app
● islam 360 app
● http://equranlibrary.com/alltafaseer/1;jsessionid=Y5ifOKW1zvMr8uhSapfpAllkI_H_acDPS8SLiwWq.vps217591
● https://youtu.be/FuMn9ju2OYE
● Qur'an visualization YouTube channel
مشق
تفسیرکا نام | مفسر | ہارڈ کاپی/سافٹ | صفحات | روزانہ |
|
|
|
|
|
غور و فکر کے موضوعات | مطالعہ | مشاہدہ | مباحثہ |
|
|
|
|
مربی کا نام | سیکھنے کا موضوع | دورانیہ |
|
|
|